Background
Logo

پاکستان میں اعلیٰ فنی اور تکنیکی تعلیم – مواقع اور رکاوٹیں

Technical-education-750x373

پاکستان میں اعلیٰ فنی اور تکنیکی تعلیم – مواقع اور رکاوٹیں

فنی و تکنیکی تعلیم کا تعارف فنی اور تکنیکی تعلیم کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تعلیم طلبہ کو عملی مہارتیں سکھا کر روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں فنی تعلیم کے ادارے جیسے NAVTTC (نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن) اور TEVTA (ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی) اس کام میں مصروف عمل ہیں۔ اس کا مقصد ایسے ہنر مند نوجوان تیار کرنا ہے جو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کام کر سکیں۔

اداروں کی موجودہ صورتحال پاکستان بھر میں تقریباً 3,500 سے زائد فنی اور تکنیکی ادارے موجود ہیں، جن میں سالانہ لاکھوں طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔ ان اداروں میں الیکٹریشن، پلمبنگ، مشین آپریٹرز، سول انجینئرنگ، آئی ٹی اور دیگر تکنیکی شعبے شامل ہیں۔ تاہم، ان میں سے کئی ادارے جدید سہولیات، مشینری اور تربیت یافتہ انسٹرکٹرز سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے سیکھنے کا عمل مؤثر نہیں ہو پاتا۔

سرکاری اقدامات اور پالیسیز حکومت پاکستان نے "اسکلز فار آل" پروگرام کے تحت لاکھوں نوجوانوں کو فری ٹریننگ فراہم کرنے کا عزم کیا ہے۔ NAVTTC نے 2022-23 میں تقریباً 200,000 نوجوانوں کو مختلف فنی شعبوں میں تربیت دی۔ اس کے علاوہ کئی سرکاری و نجی پارٹنرشپ پروگرامز کے تحت جدید لیبز اور کورسز متعارف کروائے جا رہے ہیں، جو عالمی معیار کے مطابق ہیں۔

روزگار کے مواقع فنی تعلیم یافتہ افراد کو ملکی سطح پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں آسانی سے نوکریاں ملتی ہیں۔ بیرون ملک خاص طور پر خلیجی ممالک میں بھی پاکستانی ہنر مند افراد کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان سے 600,000 سے زائد ہنر مند افراد بیرون ملک روزگار کے لیے گئے، جنہوں نے ترسیلاتِ زر میں اہم کردار ادا کیا۔

خواتین کا کردار اور شمولیت پاکستان میں خواتین کی فنی تعلیم میں شمولیت نسبتاً کم ہے، تاہم بہتری کی کوششیں جاری ہیں۔ خواتین کے لیے مخصوص ادارے، کورسز اور تربیت گاہیں قائم کی گئی ہیں تاکہ وہ بھی خود کفیل بن سکیں۔ 2022 میں NAVTTC کے تحت تربیت حاصل کرنے والوں میں سے 25٪ خواتین تھیں، جو ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔

تکنیکی تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی کا فقدان پاکستان کے زیادہ تر فنی ادارے اب بھی پرانی مشینری اور فرسودہ نصاب پر انحصار کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی جیسے AI، Robotics، IoT، اور CNC مشینری کے کورسز ابھی بہت محدود سطح پر دستیاب ہیں۔ اس سے طلبہ عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مہارت حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

نجی اداروں کا کردار نجی شعبے میں بعض ادارے جیسے NIDA، Skill Development Council، اور مختلف NGO’s فنی تعلیم میں قابلِ ذکر کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ادارے جدید مہارتوں کی تربیت دیتے ہیں اور اکثر روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، نجی اداروں کی فیسیں زیادہ ہونے کے باعث عام آدمی کے لیے رسائی مشکل ہوتی ہے۔

سماجی رویے اور فنی تعلیم بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں فنی تعلیم کو اب بھی کم تر سمجھا جاتا ہے۔ والدین اور طلبہ عمومی طور پر ڈاکٹر یا انجینئر بننے کو ہی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے آگاہی مہمات، کامیاب ہنر مندوں کی کہانیاں، اور میڈیا کے ذریعے مثبت تشہیر کی ضرورت ہے۔

پبلک-پرائیویٹ شراکت داری کی اہمیت فنی تعلیم کے فروغ کے لیے سرکاری و نجی شعبے کے درمیان مؤثر شراکت داری ناگزیر ہے۔ مشترکہ منصوبے، انٹرن شپ پروگرامز، اور انڈسٹری سے براہِ راست روابط فنی تعلیم کو عملی میدان سے جوڑ سکتے ہیں۔ ایسے ماڈلز کئی ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے اپنائے جا چکے ہیں۔

نتیجہ: راستہ آگے کا پاکستان میں اعلیٰ فنی اور تکنیکی تعلیم کے بے شمار امکانات موجود ہیں، لیکن ان سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ جدید نصاب، تربیت یافتہ انسٹرکٹرز، سہولیات، اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی ہی وہ ستون ہیں جو فنی تعلیم کو ملک کی ترقی کا اصل ذریعہ بنا سکتے ہیں۔