

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع اور چیلنجز

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع اور چیلنجز
موجودہ نظامِ اعلیٰ تعلیم کا تعارف پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا نظام اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) کے تحت چلتا ہے، جو 2002 میں قائم کیا گیا۔ ملک بھر میں اس وقت تقریباً 246 سرکاری و نجی جامعات موجود ہیں۔ ان اداروں میں لاکھوں طلبہ ہر سال مختلف مضامین میں ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ یہ نظام سائنس، ٹیکنالوجی، بزنس، طب، اور سماجی علوم جیسے شعبوں میں تعلیم فراہم کرتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم میں ترقی کے مواقع گزشتہ دہائی میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کافی ترقی دیکھی گئی ہے۔ 2023 کی HEC رپورٹ کے مطابق، ملک میں یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد 1.91 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ مختلف اسکالرشپ پروگرامز جیسے کہ "پھُلبرائٹ"، "پریزیڈینشل" اور HEC کے اپنے وظائف نے کئی ذہین طلبہ کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے۔ آن لائن تعلیم کے ذریعے بھی کئی لوگ گھر بیٹھے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
نجی جامعات کا کردار نجی تعلیمی اداروں نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے میدان کو وسعت دی ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS)، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) اور آغا خان یونیورسٹی جیسے ادارے عالمی معیار کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ ان جامعات نے جدید تحقیق، بزنس ایجوکیشن اور صحت کے میدان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ البتہ ان کی فیسیں زیادہ ہونے کے سبب عام طبقے کے لیے رسائی محدود ہے۔
دیہی علاقوں میں چیلنجز پاکستان کے دیہی علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع شہروں کی نسبت کم ہیں۔ اکثر دیہی طلبہ کو معیاری کالج یا یونیورسٹی کے لیے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جو مالی اور سماجی رکاوٹوں کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت، لائبریری، اور تربیت یافتہ اساتذہ کی بھی کمی ہے۔ حکومت کو ان علاقوں میں کیمپسز قائم کرنے اور آن لائن تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
لینگویج بیریئر اور نصاب کا مسئلہ اعلیٰ تعلیم میں زبان ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ زیادہ تر کورسز انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، جو کہ اردو میڈیم پس منظر رکھنے والے طلبہ کے لیے مشکل ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، نصاب بھی اکثر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ وقتاً فوقتاً نصاب کی نظر ثانی اور اسے مقامی و بین الاقوامی ضروریات سے ہم آہنگ بنانا ضروری ہے۔
تحقیقی میدان میں ترقی کی ضرورت پاکستان میں تحقیق کے میدان میں اب بھی بہتری کی گنجائش ہے۔ دنیا کی اعلیٰ جامعات میں تحقیق پر خاص زور دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں ریسرچ فنڈنگ اور سہولیات کی کمی ہے۔ HEC نے تحقیق کے فروغ کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسے "نیشنل ریسرچ پروگرام فار یونیورسٹیز"، مگر ان کے اثرات وسیع پیمانے پر دیکھنے کو نہیں مل رہے۔
تعلیمی بجٹ اور حکومتی ترجیحات تعلیم کے لیے مختص بجٹ ہمیشہ ہی کم رہا ہے۔ 2024-25 کے بجٹ میں پاکستان نے تعلیم کے لیے GDP کا صرف 1.7% مختص کیا، جو کہ عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ اس سے جامعات میں انفراسٹرکچر، لیبز، اور فیکلٹی کی ترقی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ جب تک حکومت اعلیٰ تعلیم کو ترجیح نہیں دے گی، تب تک بہتری کی توقع محدود رہے گی۔
اساتذہ کی تربیت اور معیار اعلیٰ تعلیم میں تدریسی عملے کی قابلیت اور تربیت بھی اہم عنصر ہے۔ کچھ جامعات میں فیکلٹی جدید تحقیق اور تدریسی تکنیک سے واقف نہیں ہوتی۔ HEC نے فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرامز شروع کیے ہیں، مگر ان کی افادیت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کی مسلسل تربیت اور ترقی ہی تعلیمی معیار کو بلند کر سکتی ہے۔
انڈسٹری اور یونیورسٹی کا رابطہ اعلیٰ تعلیم کو عملی زندگی سے جوڑنے کے لیے ضروری ہے کہ جامعات اور انڈسٹری کے درمیان مضبوط تعلق ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رابطہ کمزور ہے۔ طلبہ ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں مگر روزگار کے لیے درکار عملی مہارتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ انٹرن شپ پروگرامز، انڈسٹری وزٹس، اور پراجیکٹس کو لازمی بنایا جانا چاہیے۔
نتیجہ: ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے بے شمار مواقع موجود ہیں، مگر چیلنجز بھی اسی قدر نمایاں ہیں۔ ایک جامع اور مربوط حکمتِ عملی، جس میں بجٹ میں اضافہ، جدید نصاب، تربیت یافتہ اساتذہ، اور تحقیقی سہولیات شامل ہوں، ہی اس نظام کو بہتر بنا سکتی ہے۔ اگر صحیح سمت میں اقدامات کیے جائیں تو پاکستان اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔